Friday, October 16, 2020

انوکھی ‏سوتن ‏

0 comments
⭕ انوکھی سوتن 💕 
مجھے طویل عرصہ قبل آسٹریا میں کسی پاکستانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ صاحب تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے‘ عام سے کم تعلیم یافتہ انسان تھے‘ دو شادیاں کر رکھی تھیں‘ ایک بیوی پاکستانی تھی اور دوسری مراکش سے تعلق رکھتی تھی‘ہمارا مراکش کی خواتین کے بارے میں تصور ہے یہ خوبصورت‘ سلم اور اسمارٹ ہوتی ہیں جب کہ ہماری زیادہ تر عورتیں عام نین نقش کی حامل ہوتی ہیں مگر وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی‘ ان کی مراکشی بیگم عام نین نقش کی ناٹے قد کی خاتون تھی جب کہ پاکستانی بیوی گوری چٹی کشمیرن تھی‘ یہ دونوں بیگمات اوپر نیچے دو الگ الگ فلیٹس میں رہتی تھیں۔یورپ میں بیک وقت دو شادیاں رکھنا غیر قانونی ہیں چنانچہ مسلمان ایک بیوی کو سرکاری کاغذات میں ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور دوسری بیوی صرف نکاح تک محدود رہتی ہے‘ یہ لوگ عام طور پر ڈکلیئربیوی کو سرکاری اور دوسری کو نکاحی بیوی کہتے ہیں‘ ان صاحب نے بھی اسی قسم کا ارینجمنٹ کر رکھا تھا‘ پاکستانی بیگم سرکاری تھی جب کہ مراکشی بیوی نکاحی تھی یہ کہانی یہاں تک عام تھی‘ یورپ میں ایسے سینکڑوں لوگ موجود ہیں اور ان کی داستان تقریباً ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے‘ اصل کہانی اس سے آگے آئے گی۔۔

میں اس خاندان میں چند چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا‘ خاندان میں مراکشی بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی‘ وہ پورے خاندان کی سربراہ تھی‘ وہ صاحب ‘ ان کی پاکستانی بیگم اور بچے سب مراکشی خاتوں کی بے انتہا عزت کرتے تھے‘ پاکستانی بیگم مراکشی خاتوں کو آپا اور پاکستانی بچے اماں کہتے تھے‘ پاکستانی بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی مراکشی بیگم کی گود میں بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتی تھی‘ بڑے بچے یونیورسٹی جاتے تھے لیکن وہ بھی سوتیلی ماں سے پیار کرتے تھے اور دل سے اس کا احترام کرتے تھے۔پاکستانی بیگم اپنے ہاتھ سے اپنی سوتن کو وضو کراتی تھی اور اس کیلیے جائے نماز بچھاتی تھی‘ وہ صاحب بھی دوسری بیگم پر بار بار نثار ہوتے تھے‘ یہ میرے لیے حیران کن منظر تھا‘ میں نے ایک شام اس صاحب کے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا‘ اس نے قہقہہ لگایا ‘ دونوں بیگمات کو بلایا اور پھر اپنی کہانی سنانا شروع کر دی‘ اس نے بتایا پاکستانی بیگم اس کی کزن ہے‘ یہ مزاج کی تیز اور غصے کی سخت تھی‘ یہ شادی کے بعد بیگم کو آسٹریا لے آئے‘ دو بچے ہو گئے لیکن ان کی زندگی میں بے آرامی اور بے سکونی تھی‘ یہ سارا دن کام کرتے تھے‘ شام کے وقت گھر آتے تھے تو بیگم کی قِل قِل شروع ہو جاتی تھی۔

بیوی کی فرمائشیں اور مطالبات بھی غیر منطقی ہوتے تھے چنانچہ ان کی زندگی دوزخ بن کر رہ گئی ‘ یہ روز آتے جاتے راستے میں ایک کافی شاپ پر رکتے تھے‘ ان کی دوسری بیگم اس کافی شاپ میں کام کرتی تھی‘ وہ روز خاتون کو دیکھتے تھے‘ خاتون کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے میں شائستگی تھی‘ یہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی‘ کافی شاپ میں اگر کوئی گاہک نہیں ہوتا تھا تو وہ کرسیاں اور میزیں صاف کرنا شروع کر دیتی تھی یا کاؤنٹر اور کچن کا سینک رگڑنے لگتی تھی اور یہ اکثر اوقات سیڑھی لگا کر کافی شاپ کا بورڈ صاف کرنے لگتی تھی‘ میں نے کبھی اس عورت کو کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ ’’میں اس کی ان تھک محنت سے بہت متاثر ہوا۔میں یہ دیکھ کر بھی حیران رہ گیا اس خاتون نے تین سال قبل یہ نوکری شروع کی اور یہ آخر تک اس کافی شاپ کے ساتھ چپکی رہی‘ اس دوران درجنوں ملازمین آئے اور چلے گئے‘ کافی شاپ کے دو مالکان بھی بدل گئے لیکن خاتون نے نوکری تبدیل نہ کی‘ یہ معمولی معاوضے پر پانچ لوگوں کا کام اکیلی کرتی رہی‘‘ صاحب کو آہستہ آہستہ خاتون میں دلچسپی پیدا ہو گئی‘۔
خاتون بھی ان میں دلچسپی لینے لگی‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا‘ خاتون نے شادی سے قبل دو عجیب و غریب شرطیں رکھ دیں۔اس کی پہلی شرط تھی‘ میں تمہاری پہلی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہوں گی اور دوسری شرط تھی میں ملازمت نہیں کروں گی‘ میں گھر سنبھالوں گی‘ وہ صاحب ڈرتے ڈرتے دونوں شرطیں مان گئے‘ نکاح ہوا اور وہ صاحب دوسری بیوی کو لے کر گھر آگئے‘ پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ صرف ایک دن کا واویلا تھا‘ خاتوں نے اگلے دن پہلی بیگم کو پچاس فیصد اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ دونوں ہفتے میں بہنیں بن گئیں‘ وقت گزرتا چلا گیا‘ مراکشی بیگم سلیقہ مند تھی‘ محنتی تھی ‘محبت سے لباب بھری ہوئی تھی‘ ان تھک تھی‘ وسیع دل کی مالک تھی اور یہ بے لوث تھی چنانچہ اس نے خدمت‘ محبت اور سادگی سے پورے گھرانے کا دل موہ لیا‘ یہ پورے خاندان کا مرکز بن گئی۔
وہ صاحب‘ ان کے بچے اور ان کی دونوں بیگمات بہت خوش تھے‘ صاحب خانہ نے دوسری شادی کے بعد بے انتہا ترقی بھی کی‘ یوں وہ ہر لحاظ سے شاندار ‘ مسرور اور دلچسپ خاندان تھا‘ میں نے کہانی کے آخر میں مراکشی بیگم سے پوچھا ’’آپ نے کیا جادو کیا‘ یہ انہونی ہوئی کیسے؟‘‘ خاتون نے بتایا‘ مراکش میں بزرگ خواتین اپنی پوتیوں اور نواسیوں کو دعا دیتی ہیں‘ جا اللہ تعالیٰ تمہیں فرشتہ دے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری شادی کسی فرشتہ صفت انسان سے ہو‘ میری دادی بھی مجھے یہ دعا دیا کرتی تھی۔میں نے ایک دن اپنی دادی سے پوچھا‘ اماں مجھے فرشتہ ملے گا کیسے؟ تو میری دادی نے جواب دیا‘ تمہاری شادی جس سے بھی ہو تم اس کے گھر کو جنت بنا دینا وہ شخص شیطان بھی ہوا تو وہ فرشتہ بن جائے گا‘ میری دادی نے بتایا‘ فرشتے جنت اور شیطان دوزخ میں رہتے ہیں اور دنیا کی جو عورتیں اپنے گھروں کو دوزخ بنا دیتی ہیں ان کے گھروں میں فرشتے نہیں آتے ‘ میں نے دادی کی بات پلے باندھ لی‘ میں نے اس گھر کو جنت بنا دیا چنانچہ اس گھر کے سب لوگ فرشتہ بن گئے‘ میری سوتن بھی فرشتہ ہو گئی۔آپ اب دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں لاہور کے ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ یہ بدصورتی میں مجھ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں‘ کالا رنگ‘ منہ پر چیچک کے داغ‘ چھوٹا ساقد اور کمر پر کب‘ یہ چاروں طرف سے بدصورت ہیں‘ یہ امیر بھی نہیں ہیں‘ بمشکل گزارہ ہوتا ہے‘ تعلیم بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی بیگم بے انتہا خوبصورت‘ نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں‘ یہ اپنے خاوند سے بے انتہا محبت کرتی ہیں‘ یہ اس کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھتی ہیں۔۔
میں اس عجیب و غریب ’’کمبی نیشن‘‘ پر حیران تھا‘ میں نے ایک دن اس صاحب سے بھی نسخہ کیمیا پوچھ لیا‘ یہ مجھے سیدھا اپنی بیگم کے پاس لے گیا اور میرا سوال اس کے سامنے رکھ دیا‘ بیگم نے قہقہہ لگایا اور بولی عورت کو مرد سے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں‘ کیئر‘ محبت اور عزت اور یہ شخص ان تینوں میں کمال ہے‘ مجھے انھوں نے جتنی کیئر‘ محبت اور عزت دی وہ مجھے میرے بھائیوں‘ میری ماں اور میرے والد سے بھی نہیں ملی چنانچہ میں ہر وقت ان پر نثار ہوتی رہتی ہوں۔میں نے حیرت سے اس صاحب کو دیکھا اور ان سے پوچھا ’’آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا‘‘ یہ مسکرائے اور بولے ’’دنیا کا ہر مرد حور کو اپنی بیوی دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے حوریں شیطانوں کو نہیں ملتیں انسانوں کو ملتی ہیں‘ آپ خود کو انسان بنا لیں آپ کو دنیا میں بھی حوریں مل جائیں گی اور آپ آسمانوں پر بھی حوروں کے درمیان رہیں گے‘‘ یہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اور انسان کون ہوتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین مخلوق ہیں لیکن تعالیٰ نے اس مقدس ترین مخلوق سے انسان کو سجدہ کرایا‘ کیوں؟ کیونکہ انسان کے پاس انسانیت کا جوہر تھا اور یہ وہ جوہر ہے جس سے فرشتے محروم ہیں‘ ہم انسان اگر زندگی میں ایک بار انسان بن جائیں تو ہمیں حوریں بھی مل جائیں اور ہمیں فرشتے بھی دوبارہ سجدے کریں ‘ میں نے اپنے وجود میں چھپی انسانیت کو جگا لیا تھا‘ میں نے انسان بننے کا عمل شروع کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرا گھر اس حور کی روشنی سے بھر دیا‘ میں چیلنج کرتا ہوں دنیا کا کوئی شخص اپنے اندر موجود انسانیت جگا کر دیکھے اس کی بیوی خواہ کتنی ہی بوڑھی‘ ان پڑھ یا بدصورت ہو گی وہ حور بن جائے گی‘ وہ اس کا گھر روشنی سے بھر دے گی‘‘

Tuesday, February 19, 2019

Rawalpindi to Havelian (Abbottabad) | Train Journey

0 comments
Rawalpindi to Havelian (Abbottabad) | Train Journey 


یہ ویڈیو میرے ریل گاڑی کے سفر کی ہے ، جو کہ راولپنڈی سے حویلیاں تک کا تھا ایبٹ آباد جانے کے لئے یہ ٹرین کا آخری سٹاپ ہے

Sunday, February 17, 2019

Pir Chinasi | Heavy Snowfall | Kashmir | Pakistan

0 comments

Pir Chinasi | Heavy Snowfall | Kashmir | Pakistan | Travel (Part 1)



یہ ویڈیو پیر چناسی ، مظفر آباد آزاد کشمیر کی ہے، طوفانی برفباری 

Wednesday, January 30, 2019

Snowfall in Murree| Night Time View | January 2019

0 comments

Snowfall in Murree| Night Time View | January 2019


A Trip to murree night time view of snowfall Snowfall of 2019 in Murree and Galiyat,

Friday, January 11, 2019

Motorway Pakistan - موٹروے پاکستان

0 comments

Salt Range (Kallar Kahar) M2 | Motorway (Islamabad to Lahore) Pakistan





السلام و علیکم
 یہ ویڈیو موٹر وے پاکستان کلرکہار (سالٹ رینج ) میں بنائی گئی ہے۔ جو کہ میں خود گاڑی پر بناتا رہاہوں
امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو پسند آئے گی

کسی قسم کی کمی کوتائی کو کمنٹس میں رائے دے کر بتائیں تا کہ اگلی ویڈیو میں اس کمی کو دور کیا جا سکے

آپ کی رائے کا انتظار رہے گا

Wednesday, June 27, 2018

Banjoosa Lake - بنجوسہ جھیل

0 comments
بنجوسہ جھیل، راولاکوٹ آزاد کشمیر 
Banjoosa Lake, Rawlakot, Azad Kashmir

بنجوسہ جھیل

السلام و علیکم
کچھ عرصہ قبل آزاد کشمیر جانے کا اتفاق ہوا، ویسے تو پاکستان کے سارے شمالی علاقے اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں لیکن بنجوسہ جھیل (راولاکوٹ آزادکشمیر)جا کر جو سکون اور خوبصورتی دیکھ کر دل کو تسلی اور فرحت ملی وہ ناقابل بیان ہے۔

ویسے تو یہ جھیل چھوٹی سی ہونے کے ساتھ مصنوعی بنائی گئی ہے، قدرتی نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہاں کا حسن بے مثال ہے
، ویسے جھیل پر کچھ گھنٹے گزار کر واپس راولاکوٹ بھی آیا جا سکتا ہے، راولاکوٹ سے تقریباً ایک گھنٹے سے کچھ کم کا راستہ ہے


رہائش (ہوٹل )

جھیل کے ارد گرد  کافی زیادہ ہوٹل اور گیسٹ ہاوس موجود ہیں جن کے مختلف ریٹس ہیں، کچھ جھیل کے بالکل قریب واقع ہیں کچھ اوپر چوٹی کی طرف، اب یہ آ پ پر منحصر ہے کہ آپ کو کیسی جگہ پسند ہے ۔
Hotels Information at Banjosa Lake

رہائش ( گیسٹ ہاوس)

گورنمنٹ کے موجود گیسٹ ہاوس کی بکنگ آپکو پہلے سے مظفر آباد سے کروانی ہوتی ہے، جو کہ ان کی ویب سائیٹ پہ موجود نمبر پر کال کر کے کروائی جا سکتی ہے۔نیچے لنک موجود ہے
https://www.ajktours.com/banjosa-lake-rawalakot/


ایک گلہ جو یہاں پر جانے والے لوگ اکثر کرتے ہیں ، وہ یہ کہ جھیل کا پانی تازہ نہیں ہے، یہ ان دنوں ہوتا ہے جب بارشیں نہ ہو رہی ہوں اور جھیل میں پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے بدبودار ہو جاتا ہے، لیکن بارشیں ہوتی رہیں تو پانی تبدیل ہوتا رہتاہے۔ اور بارشیں وہاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔

Location


بنجوسہ جھیل راولاکوٹ آزاد کشمیر کے پاس ہے
یہ تصویر میں راستہ اسلام آباد کے فیض آباد سٹاپ سے لے کر بنجوسہ جھیل تک دکھایا گیا ہے
یہاں سے یہ تقریباً 122 کلومیٹر بنتا ہے اور جانے میں 4 سے6 گھنٹے لگ سکتے ہیں اگر نارمل سپیڈ پر جایا جائے
یہاں جانے کے لئے آپ کہوٹہ شہر سے ہوکر جو کہ تصویر میں ہے یا پھر مری سے ہو کر بھی جا سکتے ہیں لیکن اسلام آبادسے یہ راستہ زیادہ بہتر رہے گا۔



تصاویر دیکھنے کے لئے یہاں نیچے لنک پر کلک کریں

جھیل پر صبح کا ایک دلکش منظر
جھیل میں تیرتی بطخیں




نوٹ: پہاڑی علاقوں میں سڑکیں اکثر ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں۔ اس لئے اپنے ذہن میں یہ بات لے کر چلیں کہ کسی بھی جگہ سڑک کی حالت پہلے جیسی نہیں ہوگی، اس لئے صبر اور تحمل کا دامن نہ چھوڑیں
گاڑی کو تیز نہ چلائیں کیونکہ پہاڑی علاقوں میں چڑھائی ہونے کی وجہ سے انجن جلد گرم ہو جاتا ہے
بریک کا بار بار استعمال بھی آپ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ گاڑی کو دوسرے گئیر یا لوئر گیئر میں چلائیں

Saturday, February 25, 2017

آج پیزا نہیں کھاتے (سبق آموز)

0 comments
آج پیزا نہیں کھاتے (سبق آموز)
بیوی: آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
شوہر: کیوں؟
بیوی: کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی

شوہر: کیوں؟
بیوی: اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
شوہر: ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
بیوی: اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
شوہر: کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
بیوی: ارے نہیں بابا !!
 غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
شوہر: تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
بیوی:آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔
خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
شوہر: واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔



تین دن بعد
شوہر: (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
ماسی: صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
شوہر: اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟

ماسی: نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں' 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔

شوہر: 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟
وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا' چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔
آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔

 ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔
 (منقول)
میرے بلاگ پر آنے کا شکریہ